میں دھشت گرد بننا چاہتا تھا۔۔۔

میرا نام علی احمد خان ہے، میری عمر ١٩ سال ہے، میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا.. ہوں! میرے ابا اپنے دوست کی ٹریول ایجنسی میں بطور اکاونٹینٹ کام کرتے تھے. در حقیقت ایجنسی کے تمام کام میرے ابا کے سپرد ہی تھے کیونکہ ان کے دوست بہت سست اور دوسروں پی انحصار کرنے والے شخص تھے. نومبر ٢٠١١ کی بات ہے ایک رات میرے ابا اپنے دفتر سے کافی پریشان گھر لوٹے. ہمارے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ان کے دوست نے کچھ لوگوں کو غیر قانونی پاسپورٹس اور ویزے فراہم کرنے ہیں.انہوں نے کہا، “میں نے اجمل (میرے ابا کے دوست)کو سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ ایک غیر قانونی کام ہے ، تم کسی مصیبت میں پھنس سکتے ہو. پر اسکو پیسوں کی لالچ نے صحیح غلط کی تمیز کرنے سے محروم کیا ہوا ہے. اس لئے میں نے سوچا ہے کہ میں استعفیٰ دے دوں گا.” امی نے انہیں کہا کہ انہوں نے بالکل درست فیصلہ کیا ہے. پر میرے ابا اس بات کو لے کر پریشان تھے کہ اگر انکو جلد نوکری نہ ملی تو میری پڑھائی کے خرچے کیسے پورے ۔ہونگے۔ میں نے انہیں گلے سے لگا کر تسلی دی کہ آپ فکر نہ کریں، اللہ ہمارے ساتھ ہے. ابا میری بات سن کر مطمئن ہوگئے
اگلے دن کالج سے واپسی پہ میں نے سوچا ابا سے ملتا چلوں، انکا دفتر میرے کالج اور گھر کے درمیان پڑتا ہے. آج وہ اپنی اتنے سالوں کی نوکری چھوڑ رہے ہیں انہیں تکلیف تو ہوگی، انہی سوچوں میں ڈوبا جب میں انکے دفتر پہنچا تو باہر بہت سی گاڑیاں کھڑی پائیں، میں نے دل میں سوچا شاید وہی لوگ آئے ہوں جن کے لئے انکل اجمل نے غیر قانونی کام کرنا ہے. پر ایک لمحے بعد ہی میں نے سادہ کپڑوں میں ملبوس چند افراد کو ایجنسی سے باہر آتے دیکھا. وو میرے ابا کو بازوؤں سے گھسیٹ کر باہر لا رہے تھے، ابا ان سے کچھ کہناچاہ رہے تھے. میں بھاگ کر ابا کے پاس پہنچا پر ان لوگوں نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا. ابا نے مجھے دیکھ کر کہا کہ بیٹا فکر نہ کرو، کچھ غلط فہمی ہو گئی ہے. تم گھر جاؤ، سب ٹھیک ہو جائے گا. اس سے پہلے کہ ابا کچھ اور کہتے، ان لوگوں نے ابا کو گاڑی میں بٹھایا اور وہاں سے چلے گئے. میں سیدھا گھر آیا اور امی کو سب بتایا. اب ہم دونوں پریشان تھے اور ابا کی کوئی خیر خبر نہ تھی، تھک کر امی نے انکل اجمل کو فون کیا تا کہ ابا کہ بارے میں کچھ معلوم کر سکیں. انہوں نے بتایا کہ ابا کو ایف آئی اے والے گرفتار کر کے لے گئے ہیں اور اب وہ انکے دفتر میں ہی ہیں. اگلی صبح میں اپنے ابا سے ملنے ایف آئی اے دفتر کے پہنچ گیا، پہلے ان لوگوں نے مجھے ابا سے ملوانے سے صاف انکار کر دیا. پر پھر شاید میری منتوں سے انکا دل نرم ہو گیا اور انہوں نے مجھے صرف پندرہ منٹ ابا کے ساتھ گزارنے کی اجازت دے دی. جب میں ابا سے ملا تو انہوں نے بتایا کہ کل جب انہوں نے انکل اجمل کو کہاکہ وہ استعفیٰ دینا چاہتے ہیں تو پہلے تو انہوں نے ابا کو روکنے کی کوشش کی، پر ابا کے اصرار پہ ان سے گزارش کی کہ بس پھر آج کا دن ابا اُن کا ایک کام کر دیں، پھر وہ نوکری چھوڑ سکتے ہیں. ابا نے دوستی میں حامی بھر لی. انکل اجمل نے ابا کو یہ کہہ کے کچھ لوگوں کے پاس بھیجا کہ ابا ان سے کچھ ضروری کاغذات لے آئیں، انکل اجمل نے اُن لوگوں کے ویزے لگوانے ہیں. جب ابا اُن لوگوں سے بریف کیس لے کر واپس ایجنسی پہنچے تو ان کے پیچھے ہی کچھ گاڑیاں بھی آ کر رکیں، گاڑیوں سے اترنے والے لوگوں نے ابا سے بریف کیس کھولنے کا مطالبہ کیا. ابا نے بتایا کہ انکو کمبینیشن نہیں معلوم، سادہ وردی والے ابا کو اندر لے گئے اور انکل اجمل سے کمبینیشن معلوم کیا. بریف کیس کھولنے پہ ابا کو پتا چلا کہ اس میں کاغذات نہیں بلکہ پیسے تھے، وہ پیسے جو انکل اجمل کو غیر قانونی پاسپورٹس بنانے کی ڈیل کے ملنے تھے. ایف آئی اے کے سامنے انکل اجمل نے سارا الزام ابا کے سر ڈال دیا. بات یہاں تک پہنچی تھی کہ ایف آئی اے کے ایک آفیسر نے اندر آ کر مجھے گریبان سے پکڑ کے گھسیٹا اور دفتر سے باہر لا کر زمیں پر پھینک دیا. تب تک میرا سر گھوم رہا تھا، کمبینشن انکل اجمل کو پتا تھا، پر پکڑے ابا گئے؟ میں نے گھر آ کر امی کوساری بات بتائی اور ہم نے کسی وکیل کا بندوبست کرنے کا فیصلہ کیا، اگلی صبح ہم اپنے شہر کہ ایک مشہور وکیل کے دفتر پہنچے، اسے تمام قصہ سنایا، وکیل صاحب نے کیس سننے کے فوراّبعد بتایا کہ انکی فیس دو لاکھ ہے اور وہ آدھی فیس کیس شروع کرنے سے پہلے لیں گے. میرے تمام تر اصرار پہ بھی وہ ابا کی اُسی دن ہونے والی پیشی پہ نہیں گئے کیوں کہ پیسے لئے بغیر پیشی پرجانا انکا ‘اصول’ نہیں تھا. ہم پیسوں کا انتظام کرنے گھر آ گئے، امی نے اپنا زیور بیچنے کا فیصلہ کیا. جیسےہی ہم زیور لے کر گھر سے نکلنے لگے فون کی گھنٹی بج گئی، امی نے فون اٹھایا اور تقریبآ آدھا منٹ خاموشی سے فون سننےکے بعد وہ زمین پہ بیٹھ گئیں، میں دوڑ کر انکے پاس گیا. “امی کیا ہوا؟ بتائیں کیا ہوا؟” میرے تمام سوال اُن سے کوئی جواب حاصل نہ کر سکے. میں نے پلٹ کر ریسیور تھاما اور ہیلو کہا، دوسری طرف انکل اجمل کی آواز آئی، “بیٹا، ایف آئی اے نے آج تمھارے ابا کو کورٹ میں پیش کیا تھا، اور لوگوں کو غیر قانونی سفر میں مدد کرنے کے جرم میں عدالت نے تمھارے ابا کو دس سال قید کی سزا سنائی تھی، تمھارے ابا برداشت نہ کرپائےبیٹا، اچانک ہارٹ اٹیک سے موقعہ پر وفات پا گئے.” مجھے نہیں پتا انکل اجمل کیا کہہ رہے تھے، کیوں کہ رہے تھے، مجھے نہیں پتا میں کتنی دیر کھڑا رہا یا شاید امی کے پاس بیٹھ گیا تھا، وہ کچھ بول نہیں رہی تھیں، میرے بالوں میں انگلیاں نہیں پھیر رہی تھیں، کچھ صحیح نہیں تھا. اگلے دو دن میں بہت کچھ ہوا تھا اور شائد کچھ بھی نہیں ہوا تھا. لوگ آئے تھے، روئے تھے، میں نہیں رو پایا، نہ امی، وہ تو کچھ بول بھی نہیں رہی تھیں، پھر وہ چلانے لگیں، میں نے اُن سے بات کرنے کی کوشش کی تو اُنہوں نے مجھے تھپڑ مار کر اُن سے دور ہو جانے کا کہا. پھر وہ ہنسنے لگیں تھیں، ایک ایک افسوس کرنے والے یا شائد تماشہ دیکھنے آنے والے کو دیکھ کر. پھر کسی کے فون کرنے پر پاگل خانے سے گاڑی آئی اور میری امی کو لے گئی. میرے گھر میں بہت سے لوگ جمع تھے اور حقیقت میں کوئی بھی نہیں تھا. لوگ “چچ چچ ” کرنے میں مصروف تھے، پھر وو فوراّ سے جانے لگے کہ شاید میری مصیبت ان کے سر نہ پڑ جائے، میں اُنہیں روک نہ لوں یا ان کے ساتھ نہ چل پڑوں. پر میں چل پڑا تھا کہاں کے لئے؟ مجھے خود نہیں پتہ تھا، پتا نہیں میں کتنے دن چلا، پر جب میں ہوش و حواس میں واپس آیا تو میں نے دیکھا میں ایک ‘سکول’ کے باہر کھڑا تھا، ایک دہشت گردی سکھانے والے سکول کے باہر، میں دہشت گرد بننا چاہتا تھا..
میں دہشت گرد اس لئے نہیں بننا چاہتا تھا کہ میں کچھ لوگوں کو مار کر جنت حاصل کر سکوں. میرے اندر غصہ تھا، ویسا غصہ جس میں آپکا دل کرتا ہے کہ آپ اکیلے نہ جلیں. معاشرے کی تقسیم کہ خلاف غصہ جہاں امیر کرے تو نا جائز کام بھی جائز اور غریب کا جائز بھی ناجائز. اُن اصولوں کہ خلاف غصہ جو صرف امیر کو حقوق دلوا سکتے ہیں غریب کو نہیں. میں نے اپنی زندگی کی تلخ سچائیوں سے بچنے کے لئے دہشت گردی کی تربیت کو اپنا راہ فرار مان لیا تھا. میں نے دن رات محنت کر کے سخت سے سخت تربیت لی اور چھ ماہ میں، میں اپنا “غصہ نکالنے” کے لئے تیار تھا. مجھے میرا پہلا (اور آخری بھی) کام میرے سنٹر جوائن کرنے کے چھ ماہ بعد دیا گیا. مجھے ایک سبزی منڈی میں خود کش دھماکہ کرنا تھا. مجھے میری منزل تک میرے سنٹر کے لوگوں نے ہی پہنچایاتھا. پھر وہ مجھے وہاں چھوڑ کر خود چلے گئے تھے کیونکہ مجھے ساری ہدایات پہلے ہی دی جا چکی تھیں. گاڑی سے اتارے جانے کے بعد میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا منڈی کے درمیان میں آ گیا تھا، لوگوں کا بہت رش تھا. آج میرے انتقام کا دن تھا، اِن لوگوں سے، اِس معاشرے سے جس میں رائج عجیب و غریب اصولوں کی وجہ سے میرا باپ چلا گیا اور میری ماں پاگل ہو گئی. یہ سب میرے قصور وار تھے اِن سب نے مل کر یہ معاشرہ بنایا تھا. ایف آئی اے جیسے ادارے، جن کے لیے مجرم وہ ہے جو رشوت نہ دے سکے، اسی معاشرے کی پیداوار ہیں۔ اجمل اکیلا غلط نہیں تھا، وہ معاشرہ بھی غلط ہے جس میں اُس جیسے لوگ گناہ کر کے بچ جاتے ہیں. مگر جیسے جیسے لوگ میرے پاس سے گزر کر آگے بڑھ رہے تھے مجھے احساس ہو رہا تھا کہ وہ سب میرے جیسے تھے، وہ سب میرے مجرم تھے پر وہی سب مظلوم بھی تھے. یہ سب لوگ جو معاشرے کی نا انصافیوں پر خاموش رہے تھے آج خود اِنہی نا انصافیوں کا روز شکار ہو رہے تھے. یہ سب مار رہے تھے تو مر بھی رہے تھے. یہاں ہر کوئی ایک دوسرے کی جڑیں کاٹ رہا تھا، یہ سب قاتل بھی تھے اور مقتول بھی. ہر انسان دوسرے کا حق مار کر اپنا حاصل کرنا چاہ رہا تھا اور اسی جدوجہد میں اپنی انسانیت بھی کھوتا جا رہا تھا. میرا سر گھومنے لگا تھا. میں ایک حالات کا مارا یہاں آیا تھا پر یہاں سب علی احمد خان تھے، یہاں سب ٹوٹے ہوئے، ہارے ہوئے لوگ تھے جو بے ہسی کی زندگی جئےجا رہے تھے. میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے، میں جو اتنے عرصے سے رو نہیں پایا تھا، آج سب اپنے جیسے لوگوں کو دیکھ کر برداشت نہ کر سکا. مجھے ایسا لگا تھا جیسے میرے ارد گرد لوگ نہیں تھے، آئینے تھے.
میں ٹوٹ چکا تھا، جس درد سے بھاگتا رہا تھا آج وو سب ایک ساتھ محسوس ہوا تھا. میں نے ایک آخری بار سب لوگوں کی طرف دیکھا تھا پھر میں وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا تھا. میرا دل کیا تھا کہ میں اتنا دور نکل جاوُں کہ اپنے جیسے لوگ کہیں نہ پاؤں، لیکن میں جانتا تھا ایسا ممکن نہیں ہے. مجھے آرمی کی جو پہلی چیک پوسٹ نظر آئی میں نے وہاں پہنچتے ہی ہتھیار ڈال دیے تھے. میں نے آرمی کو سب کچھ بتا دیا تھا، اور یہ بھی کہ میں آج کا دھماکہ اس لئے نہیں کر سکا کیونکہ میں مرے ہوئے لوگوں کو مارنا نہیں چاہتا تھا. اس کے بعد میں نے تین ماہ آرمی کے بحالی سنٹر میں گزارے، اس کے بعد انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں اپنی زندگی کے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہوں، میں اس سوال کا جواب پہلے ہی سوچ چکا تھا. میں پڑھنا چاہتا تھا، میں قانون پڑھنا چاہتا تھا. اگر میں کسی ایک انسان کو بھی انصاف دلا سکا تو ہو سکتا ہے میں اُس کے بیٹے کوعلی بننے سے بچا لوں. میں اگر معاشرے میں کچھ بہتر تبدیلی لے آؤں تو میرے چاروں طرف موجود آئینے کچھ کم ہو جائیں گے. ہارے ہوئے لوگ جیت جائیں گے اور ظالم اور مظلوم علیحدہ ہو جائیں گے. مجھے لگتا ہے میں ایسا کر سکتا ہوں کیونکہ میں کسی کو اپنی جگہ نہیں دیکھنا چاہتا.